تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں
کیسے ملتا کہیں پہ تھا ہی نہیں
گھر کے ملبے سے گھر بنا ہی نہیں
زلزلے کا اثر گیا ہی نہیں
مجھ پہ ہو کر گزر گئی دنیا
میں تری راہ سے ہٹا ہی نہیں
کل سے مصروف خیریت میں ہوں
شعر تازہ کوئی ہوا ہی نہیں
رات بھی ہم نے ہی صدارت کی
بزم میں اور کوئی تھا ہی نہیں
یار تم کو کہاں کہاں ڈھونڈا
جاؤ تم سے میں بولتا ہی نہیں
یاد ہے جو اسی کو یاد کرو
ہجر کی دوسری دوا ہی نہیں