تیرے فراق سے دل سے نکال کر دنیا
چلا ہوں سکے کی مانند اچھال کر دنیا
بڑھا لیا تیرے دامن کی طرف اک ہاتھ
اور اک ہاتھ میں رکھی سنبھال کر دنیا
میں اپنے ہجر میں نان و نمک پہ قانع ہوں
وہ چل دیا میری جھولی میں ڈال کر دنیا
ہماری کھوج میں پھرتے ہیں انفس و آفاق
ہم ایسے در بدروں کا خیال کر دنیا