تیرے فراق میں دل بےقرار آج بھی ہے
دیار درد میرا سوگوار آج بھی ہے
کہاں سے ڈھونڈھ کے لاؤں تیرا وہ لمس لطیف
نگاہ لطف تیرا انتظار آج بھی ہے
ہزار بار زمانے کو ہو گلہ تجھ سے
دل و نگاہ کو تیرا اعتبار آج بھی ہے
وہ لوگ اور تھے جو اٹھ گئے مگر مجھ کو
وہی بہار وہی گلزار آج بھی ہے
یہ بات دل سے اترتی نہیں کسی طرح
بہار زیست جو کل تھا بہار آج بھی ہے
رضا میں کیسے کہوں خود سے دوسرا اس کو
رگ گلو پہ جسے اختیار آج بھی ہے