جانے انجانے میں جو بھول ہوئی
اسی پر پیشمانی ہمیں بڑی ہوئی
ہم نے قدم بڑھا تو دئے تھے مگر
راہ میں ہی راہزن سے شنوائی ہوئی
لٹ لٹا کر بھی بہت بچا گئے ہم
یادوں کے خزینے میں نہ کبھی کمی ہوئی
سمجھنے کی کوشش کیجئے نہ حضور
ہم وہ تحریر ہیں جو کبھی تحریر ہی نہیں ہوئی
شور اٹھا تھا جو دل میں ہمارے کبھی
ا سے ہی دبانے میں عمر تمام ہماری ہوئی
قصہ گو ہوں مجھے شاعری سے کیا مطلب
جو بھی لکھا اس کی تک بندی میں شماری ہوئی ۔