جانے کب اور کیسے میں اس سے دور ہو گیا
کچھ خود سے کچھ حالات سے مجبور ہو گیا
کب یہ مانا تھا کہ محبت رلا دیتی ہے
آج اپتے دل کا افسانا ہی دستور ہو گیا
سمجھا جسے منزل اپنی وہی سرائے نکلا
نئی منزل نیا رستہ منظور ہو گیا
ہوتا نہیں درد جب حد سے گزر جائے غم
مسکرا رہا ہوں ایسے جیسے رنجور ہو گیا
نصیب کے اس درد کو جھیلو گے کیسے تنویر!
خدایا کہ تم سے کیسا یہ قصور ہو گیا