جانے کیوں برباد ہونا چاہتا ہے
صورت فرہاد ہونا چاہتا ہے
ذہن سے آخر میں اب تھک ہار کر
میرا دل آباد ہونا چاہتا ہے
آسماں والے یہ سن کر ہنس پڑے
آدمی آزاد ہونا چاہتا ہے
ہر جگہ تعمیر کر کے اک ارم
ہر کوئی شداد ہونا چاہتا ہے
سانحہ یہ ہے کہ اک بلبل کا دل
دامن صیاد ہونا چاہتا ہے
ہو کے منصف تخت پہ اب جلوہ گر
واقف روداد ہونا چاہتا ہے