جانے کیوں
ایسا لگتا ہے
یہ پل یہ ساعتیں
پھر لوٹ کر نہ آئینگی
سمیٹ لوں سب کچھ
کہ آج جو کچھ ملا ہے
کل چھن بھی سکتا ہے
خواب جیسی زندگی
تعبیر ملنے سے پہلے ہی
دم توڑ بھی سکتی ہے
ہاں خواہشوں کے بہنور میں
ڈوب بھی سکتی ہے
تاریکی پھیلنےسے پھلے
اس ننھی سی کرن کو
مٹھی میں بند کرلوں
کہ شائد یہ گھپ اندھیروں میں
میری رہبری کر دے
مجھے خود سے ملا دے
اس خوف کو مٹا دے
یہ پل یہ ساعتیں
میری کل زندگی کا
حاصل بن جائیں
جانے کیوں ایسا سوچ رہی ہوں
جانے کیوں
ہاں جانے کیوں