جان ترے وصال کا لب سے سوال بھی گیا

Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکوال

جان ترے وصال کا لب سے سوال بھی گیا
بچھڑا تھا اس ادا سے وہ اس کا ملال بھی گیا

کارِ وفا شعار تھا، سو تھا کسی زمانے میں
اب تو یہ حال ہے مرا اُس کا خیال بھی گیا

بھولنا تجھ کو میری جاں گو کہ کبھی محال تھا
جب وہ گماں رہا نہیں تب وہ محال بھی گیا

ہوش و ہوس تبہ ہوئے جان ترے گمان میں
اپنا زوال بھی گیا اپنا کمال بھی گیا۔

اپنا حسابِ زندگی کیسے کروں بتا مجھے
تیرا فراق بھی گیا تیرا وصال بھی گیا

تجھ سے بچھڑ کہ میری جاں چین قرار سب گیا
جانیے کیا سہا گیا زورِ سوال بھی گیا

شوقِ فدائی ہی وہ تھا جس نے کیا تبہ مجھے
نبض جنون ڈوبتے ہی میرا حال بھی گیا

Rate it:
Views: 446
15 Apr, 2013
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL