جب بھی اک شام ڈھلی ٹوٹی سپنوں کی لڑی
ہونٹ خاموش رہے پلکیں اشکوں سے جھڑی
وقت منہ موڑ گیا تو جہاں چھوڑ گیا
گم خیالوں میں وہیں تیرے میں کب سے کھڑی
دل کو تڑپاتی رہی ٹھیس سلگاتی رہی
عمر زنجیر میں کم تیرے ہونے کی کڑی
عشق دستور رہا پیار بھر پور رہا
حسن کو سجدہ کروں یہ نہیں بات بڑی
پھول مسکائیں کبھی صحن مہکائیں کبھی
اب چلے آؤ کہ دل کی خوا ہش ہے بڑی