جب بھی جی چاہے نئی دنیا بسا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پہ کئی چہرے لگا لیتے ہیں لوگ
یاد رہتا ہے کِسے، گزرے زمانے کا چلن
سرد پڑ جاتی ہے چاہت، ہار جاتی ہے لگن
اب محبت بھی ہے کیا
اِک تجارت کے سِوا
ہم ہی ناداں تھے جو اوڑھا بیتی یادوں کا کفن
ورنہ جینے کے لیے سب کچھ بُھلا لیتے ہیں لوگ
جانے وہ کیا لوگ تھے، جن کو وفا کا پاس تھا
دوسرے کے دل پہ کیا گزرے گی، یہ احساس تھا
اب ہیں پتھر کے صنم
جن کو احساس نہ غم
وہ زمانہ اب کہاں جو اہلِ دل کو راس تھا
اب تو مطلب کے لیے نامِ وفا لیتے ہیں لوگ