جب بھی کویٔ خواب سجانے لگتے ہیں
ہم کو کتنے خوف ستانے لگتے ہیں
آنکھیں ساتھ کہاں دیتی ہیں چہرے کا
جب وہ جھوُٹی بات بنانے لگتے ہیں
کتنے در کھلُ جاتے ہیں انجانے میں
ہم جب بھی دیوار بنانے لگتے ہیں
کچھ کہتے کہتے رُک جاتے ہیں اکثر
جب وہ دِل کی بات بتانے لگتے ہیں
اِک دو پل میں ہو جاتا ہے گھر برباد
بننے میں پر لاکھ زمانے لگتے ہیں
آتے جاتے موسم جانے کیوں ہر بار
دِل میں غم کے پھوُل کھلانے لگتے ہیں
ایک نظر چاہت کی اور دو میٹھے بول
ہم کو تو انمول خزانے لگتے ہیں
عذراؔ وامق ، سسی پنوں ، رانجھا ہیر
ہم کو تو جھوُٹے افسانے لگتے ہیں