تری زلفوں کی شب
صبح بہاروں کے پر کاٹے
تری آنکھوں کے
مست پیالوں کا اک قطرہ
آس کی مرتیو کا سر کاٹے
جانے ان جانے کی اک انگڑائ
نفرت کے ایوانوں میں
ان کے ناہونے ترے ہونے کا
قرطاس الفت پر
امروں پر اپنی امرتا لکھ دے
اب جب سے
میں تجھ کو سوچے ہوں
مری بصارت کے در وا ہوءے ہیں
اپنی سوچ کا اک ذرہ
گر کوہ پر رکھ دوں
دیوانہ ہو
مجنوں کی راہ پکڑے
مری سوچ کی حدت سے
صحراؤں کا صحرا اپنی پگ بدلے
تری مسکانوں کی بارش
شور زمینوں کو
برہما کے بردان سے بڑھ کر
میں تجھ کو سوچے ہوں
کہ سوچنا جیون ہے
کھوجنا جیون ہے
جب تم مجھ کو سوچو گے
تم پر کن کا راز وا ہو گا
وہ ہی ہر جا ہو گا
تم کہتے پھرو گے
One into many
But many are not one
Nothing more but one
When we divide one
Face unjust and hardship
I and you are not two but one
One is fact
Fact is one