جب زندگی کی ریل یہ آگے نکل گئی
اچھا ہوا کہ آنکھ بھی دنیا بدل گئی
اشکوں پہ اختیار نہیں اب رہا کوئی
ندیا تھی ایک راستہ دریا میں ڈھل گئی
پہلے سے اب کہاں تری یادوں کے سلسلے
صد شکر میرے سر سے محبت بھی ٹل گئی
کچھ اجنبی پرانے نظر آئے راہ میں
چشمِ زمانہ ساز اچانک مچل گئی
امروز ہر طرف ہے اداسی وجود میں
وہ شکل مجھ کو چھوڑ کے خلوت میں کل گئی
کچھ روز دکھ ہوا تھا جدائی کا شہر میں
پھر یوں ہوا کہ وشمہ طبیعت سنبھل گئی