عید آنے کو ہے میں نے سوچا بہت
پھول بھیجوں کہ مہکار بھیجوں اُسے
چند کلیوں سے شبنم کے قطرے لئے
اُس کے رخسار پر آنسوؤں کی طرح
خوبصورت لگیں گے اُسے بھیج دوں
پھر یہ سوچا نہیں
اُس کے عارض کہاں گُل کی پتّیاں کہاں
اُس کے آنسو کہاں شبنم کے قطرے کہاں
پھر یہ سوچا کہ
کچھ چاند کی چاندنی اور ستاروں کی روشنی بھی ساتھ ہو
مانگ کر چھین کر جس طرح بھی ہو ممکن اُسے بھیج دوں
پھر یہ سوچا نہیں
اُس کی آنکھیں کہاں چاند تارے کہاں
پھر یہ سوچا کہ
تھوڑا سا نورِ سحر
میں سحر سے چُرا کر اُسے بھیج دوں
پھر یہ سوچا نہیں
نور اُس کا کہاں نور صبح کا کہاں
پھر یہ سوچا کہ
گھٹاؤں کو ہی بھیج دوں
اُس کے آنگن میں اُتر کر رقص کرتی رہیں
پھر یہ سوچا نہیں
اُس کی زلفیں کہاں یہ گھٹائیں کہاں
پھر یہ سوچا کہ
اِک مئے سے بھرا جام ہی بھیج دوں
پھر یہ سوچا نہیں
سارے عالم کے ہیں جتنے بھی میکدے
اُس کی آنکھوں کی مستی ہی بانٹی گئی
ساغر و مئے کہاں اُس کی آنکھیں کہاں
اُس کے قابل مجھے کچھ بھی نہ لگا
چاند تارے ہوا اور نہ ہی گھٹا
میں اسی سوچ میں تھا پریشان بہت
کہ کسی نے دی اِک نِدا اس طرح
یاد کرکے اُسے جتنے آنسو گریں
سب کو یکجا کرو اور اُسے بھیج دو