ہاتھ میں لکیریں ہیں
تم نہیں لکیروں میں
میری بے بسی دیکھو
میری بے بسی پے تو
ہاتھ کی لکیریں بھی
ایسے مسکراتی ہیں
جیسے مسکرائے وہ
آج جب کہا ان سے
آج رات بھاری ہے
تیرے شہر میں یہ رات
آخری ہماری ہے
سو کرم کیے تو نے
اک کرم یہ کر لینا
آج شام کے کچھ پل
میرے نام کر لینا
مجھ سے بات کر لینا
میری بے بسی دیکھو
شام کے یہ سارے پل
مجھ پے مسکراتے ہیں
اور مجھے ستاتے ہیں