جذبہ ہو تو بند بنایا جا سکتا ہے
ڈوبتا ہوا شہر بچایا جا سکتا ہے
بہتی ہوئی ندی کے دو کناروں کی طرح
آخر کب تک ساتھ نبھایا جا سکتا ہے
سامنے سے جب کوئی بھی آواز نہ دے
کب تک تنہا شور مچایا جا سکتا ہے
طویل مسافت پہ محبت کے رہی کو
ہاتھ پکڑ کے راہ دکھلایا جا سکتا ہے
مستقبل کی منصوبہ بندی ضروری ہے
گزرے دنوں پہ بس پچھتایا جا سکتا ہے
اپنی اپنی اوقات کے مطابق اے اہل ستم
ڈھا لو جتنا ستم ڈھایا جا سکتا ہے
جس کا حق ہے اس کو مل ہی جانا ہے
نا حق کب تک خون بہایا جا سکتا ہے