جسے خود سے نہیں ہیں فرصتیں
جسے دھیان ہے اپنے جمال کا
اسے کیا خبر میرے شوق کے
اسے کیا پتا میرے حال کا
میرے کوچہءگرد نے لوٹ کر
میرے دل پہ اشک گرا دیا
اسے ایک پل نے مٹا دیا
جو حساب تھا ماہ سال کا
تجھے شوقءدیدءغروب ہے
میری آنکھ دیکھ بھری ہوئ
کہیں تیرے ہجر کی تیرگی