جس دن یار کا نظارہ نہیں ہوتا
سانسوں کو بھی چلنا گوارہ نہیں ہوتا
آپ کے حسن کا ہے یہ سارا قصور
ورنہ کوئی عاشق بھی پیدائشی آوارہ نہیں ہوتا
بڑی کٹھن ہوتی ہیں منزلیں اس کی
جس شخص کو دعاؤں کا سہارا نہیں ہوتا
ایک بار بھگت لی ہے سزا اس کی
اب یہ جرم عشق ہم سے دوبارہ نہیں ہوتا
جو ہمیں چاہے ہم ہو جائیں اس کے لیکن
جسے ہم چاہیں وہ ہمارا نہیں ہوتا
کسی کسی کو ہوتا ہے یہ حق حاصل
ہر کوئی تو جاں سے پیارا نہیں ہوتا
اپنی چاہت بن کے رہ گئی اک افسانہ امتیاز
خسارہ ہوتا ہے مگر اتنا بھی خسارہ نہیں ہوتا