جس طرح پانی کے بلبلے ڈوبتے ابھرتے ہیں
ڈوبنے سے پہلے ہم بھی ایسے ہی ابھرتے ہیں
تمہارا کلام تمہارے سخن، اے میرے ہم سخن
ہر دم میری ذات میں خیال بن کے اترتے ہیں
چاہے کانچ جیسے نازک یہ دل والے ہوتے ہیں
بے شک ٹوٹ جاتے ہیں لیکن نہیں بکھرتے ہیں
جب سرد ہوائیں تھمتی ہیں، باد بہاری چلتی ہے
پھولوں کے ساتھ ساتھ پنچھی بھی سنورتے ہیں
چاند رات برسات بہار بدلتی رت کے ساتھ ساتھ
عظمٰی شعراء کا تخیل اور الفاظ خوب نکھرتے ہیں