جس طرح یہ رغبت درد جوڑ دیتی ہے
ہر بار ایسے خوشی منہ موڑ لیتی ہے
اس ضابطہ حیات کو ہیں سرحدیں اپنی
اور آتشی یہی حدیں توڑ دیتی ہے
یہ رنجشیں بھی تو خوب زمانے سے چھپائی
وہ غم پشیمانی پھر قصہ کھول دیتی ہے
محبت آرزو ابکہ اتنی بدر نہیں پھرتی
دل وہ پہلی سے دھڑکن تول دیتی ہے
اس صاحب فراست سے گذر کو بھی دیکھو
کہ احسان فراموشی کیا کیا مول دیتی ہے
میں اپنے آج سے کترا بیٹھا ہوں مگر
وہ کل کی اُڑی یادیں انمول دیتی ہے