جس طرف دیکھیے بازار اداسی کا ہے

Poet: انعام عازمی By: Sohaim, Islamabad

جس طرف دیکھیے بازار اداسی کا ہے
شہر میں کون خریدار اداسی کا ہے

اب تو آنکھوں میں بھی آنسو نہیں آتے میرے
یہ الگ روپ مرے یار اداسی کا ہے

روح بیچاری پریشاں ہے کہاں جائے اب
اس قدر جسم پہ اب بار اداسی کا ہے

اپنے ہونے کا گماں تک نہیں ہوتا مجھ کو
جانے یہ کون سا معیار اداسی کا ہے

اب یہ احساس ہمیشہ مجھے ہوتا ہے دوست
مجھ میں اک شخص طلب گار اداسی کا ہے

آئنہ دیکھ کے معلوم ہوا ہے مجھ کو
زخم چہرے پہ بھی اس بار اداسی کا ہے

یہ اداسی مجھے تنہا نہیں رہنے دیتی
ہاں ترے بعد یہ اپکار اداسی کا ہے

Rate it:
Views: 262
12 Aug, 2021