غمِ حیات میں ہم نے یہ اہتمام کیا
سجائی یاد کی محفل تو تیرا نام لیا
ترے خیالوں سے اب لمحہ بھر نہیں فرصت
تجھے ہی یاد کروں کیسا تو نے کام دیا
پھر اس کے بعد مجھے زہر رنج پینا پڑا
جو تیری آنکھوں سے اک بار میں نے جام پیا
جو تیرے در پہ پہنچ کر بھی درِ خاک رہا
وہ شخص راہوں میں مرتے ہر ایک گام جیا
ہے منتظر ترے آنے کی اس زمانے میں
جلا دیا ہے جو وشمہ نے لبِ بام دیا