جل گیا نہ لایا تاب رخ یار دیکھ کر
شرمندہ ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر
کہتا ہے آتش پرست سارا زمانہ مجھے
آنکھوں کی لالی آنسوؤں کی قطار دیکھ کر
جو کی آرزو دید تو عام ہوئیں جفائیں
روکتا ہوں تمہیں بے سبب آزار دیکھ کر
آیا ہے میرے قتل کو جوش جنون سے وہ
میں خود ہی مر گیا رخ یار دیکھ کر
بک جاتے اوروں کے ساتھ پر نکلے ہم ھوشیار
بچ نکلے عیار خریدار دیکھ کر
کچھ پاؤں کے چھالوں سے گبھرا گیا تھا میں
پر دل ہوا خوش راہوں میں بچھائے ان کے خار دیکھ کر
سر پھوڑنا تو اپنی عادت سی بنی تھی
ہنسی آئی کچھ یاد آیا تیری دیوار دیکھ کر
میدان عشق میں وہ نکلا ہم سے بھی جوان
خوش ہوا ارشد آج اس کی رفتار دیکھ کر