جنسِ گراں کو تجھ سے جو لوگ چاہتے ہیں
وے روگ اپنے جی کو ناحق بساہتے ہیں
اس مے کدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن
خمیازہ کھینچتے ہیں، ہر دم جماہتے ہیں
ناموسِ دوستی سے گردن بندھی ہے اپنی
جیتے ہیں جب تلک ہم تب تک نباہتے ہیں
سہل اس قدر نہیں ہے مشکل پسندی میری
جو تجھ کو دیکھتے ہیں، مجھ کو سراہتے ہیں
وے دن گئے کہ راتیں نالوں سے کاٹتے تھے
بے ڈول میر صاحب اب کچھ کراہتے ہیں