جنوں کی حد سے گزرنا کوئی آسان نہیں
سنو گے کیسے میری بات جب دھیان نہیں
چلا جاتا ہے سوئے منزل تنہا مسافر
کوئی زاد سفر نہیں کوئی سامان نہیں
نظر آئے بھی تو کیونکر کسی کو روح کی اذیت
بظاہر تو کہیں پہ کوئی بھی نشان نہیں
زبردستی کسی کو کوئی کیوں اپنے سا بنا لے
کسی کو کیا کہ جب فطرت کا ہی میلان نہیں
جبراً ہم کسی کو اپنے رنگ میں کیوں بھلا ڈھالیں
کہ جب دل کی نہیں مرضی کوئی رجحان نہیں
ہواؤں کی زمیں ہو اور بحر کا سر پہ آسماں
کسی کا ہو تو ہو میرا تو یہ ارمان نہیں
ہمارے عہد نے بس مہر بہ لب رکھا ہے
نہ یہ سمجھو کہ اپنے دہن میں زبان نہیں
اس شہر سے دل بھر نہیں پایا کہ ہم جائیں
ابھی جانے کا میرے کوئی بھی امکان نہیں
کہ جس پہ ناز ہو ابھی ایسا نہیں عظمٰی
ابھی کچھ خام ہے پختہ میرا دیوان نہیں