جن کے کاندھے گھر کا بوجھ اٹھاتے ہیں
وقت سے پہلے وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں
کچی عمر میں ہو جاتی ہے پختہ سوچ
ذہن زمانے کی جب ٹھوکر کھاتے ہیں
کتب، کھلونے، چھن جاتے ہیں جب حالات
ننھے ہاتھوں میں اوزار تھماتے ہیں
کچرے سے روٹی چنتے مفلس سے پوچھ
کیسے وہ اس پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں
تم نے کیسی آس لگا لی ہے ہم سے
پھول کبھی بلبل کے پیچھے جاتے ہیں
شک کی ٹھوکر کرچی کرچی کر دے گی
کانچ سے نازک یارو رشتے ناتے ہیں
دل نگری میں یاد تری یوں آتی ہے
جیسے پنچھی شام ڈھلے گھر آتے ہیں
اس دنیا میں کیسے جیتے ہیں عاطر
تلخ حقائق ہی تو یہ سکھلاتے ہیں