کتنی سنسان زندگی تھی
سب طاق میرے دیے سے خالی
بے برگ و ثمر بدن کی ڈالی
کھڑکی پہ نہ آ کے بیٹھے چڑیا
آنگن میں بھٹک سکے نہ تتلی
سنجوگ کی بے نمو رُتوں سے
میں کِتنی اُداس ہو چلی تھی
آواز کے سیلِ بے پناہ میں
میں تھی، میرے گھر کی خامشی تھی
پر دیکھ تو آ کے لال میرے
اس کلبۂ غم میں مجھ کو تیرے
آنے کی نوید کیا ملی ہے
جینے کا جواز مل گیا ہے