جوگی تھا یا روگی تھا
Poet: محمد اطہر طاہر By: Athar Tahir, Haroonabadسڑک کنارے بیٹھا تھا
کوئی جوگی تھا یا روگی تھا
کیا جوگ سجائے بیٹھا تھا؟
کیا روگ لگائے بیٹھا تھا؟
تھی چہرے پر زردی چھائی
اور نیناں اشک بہاتے تھے
تھے گیسو بکھرے بکھرے سے
جو دوشِ ھوا لہراتے تھے
تھا اپنے آپ سے کچھ کہتا
اور خود سن کے ھنس دیتا تھا
کوئی غم کا مارا لگتا تھا
کوئی- دکھیارا لگتا تھا
اس جوگی کو جب دیکھتے تھے
ھر بار یہی ھم سوچتے تھے
کیا روگ لگا ھے روگی کو؟
کس شے کا سوگ ھے جوگی کو؟
اک دن اس نے کوچ کیا
اور سارے دھندے چھوڑ گیا
وہ جوگی، روگی، سیلانی
سارے ھی پھندے توڑ گیا۔
پھر اپنا قصہ شروع ھوا
اک مورت دل میں آ بیٹھی
نین نشیلے، ھونٹ رسیلے
چال عجب متوالی سی
روپ سنہرا، چاند سا چہرا
زلفیں کالی کالی سی
ھنسے تو پائل بجتی تھی
روئے تو تھل، جل ھو جائے
بینا کی لے تھی لہجے میں
کہ سننے والا سو جائے
وہ چلے تو دینا ساتھ چلے
جو رکے تو عالم تھم جائے
ھو ساتھ تو دھڑکن تیز چلے
دوری سے سانس یہ جم جائے
کچھ قسمیں،وعدے، قول ھوئے
انمول تھے وہ، بِن مول ھوئے
کچھ قیمت تھی تو اپنی جاں
تھا ھوش کسے؟ دھیان کہاں؟
تھے سونے جیسے دن سارے
راتیں سب چاندی کی تھیں
امبر کا رنگ سنہرا تھا
جہاں قوس و قزاح کا پہرا تھا
اک دن یونہی بیٹھے بیٹھے
کچھ بحث ھوئی، تکرار ھوئی
وہ چلدی روٹھ کے بس یونہی
میں سوچ میں تھا بیکار ھوئی
کچھ دن گذرے پھر ہفتہ بھی
نا دیکھا، نا ملاقات ھی کی
ناراض تھی وہ، ناراض رھی
نا فون پہ اس نے بات ھی کی
جب ملی تو صاف ھی کہہ ڈالا
"وہ بچپن تھا نادانی تھی"
کیا دل سے لگائے بیٹھے ھو؟
"وہ سب کچھ ایک کہانی تھی"
تھی دل پہ بیتی کیا اس پل؟
تم لوگ سمجھ نہ پاو گے
جب تم پر یہ سب بیتے گا
یہ روگ سمجھ ھی جاو گے
سب یاد دلائے عہدِ وفا
وہ قسمیں، قول، قرار سبھی
سکھ، دکھ میں ساتھ نبھانے کے
وہ وعدے اور اقرار سبھی
وہ ھنس کے بولی، پاگل ھو؟
کبھی وعدے پورے ھوتے ھیں؟
کیا اتنا بھی معلوم نھیں؟
یہ عہد ادھورے ھوتے ھیں۔
تمھیں علم نہیں؟ نادان ھو تم؟
کبھی قسم نباہی جاتی ھے؟
کس دیس کے رھنے والے ھو؟
یہ قسم تو کھائی جاتی ھے۔
وہ ھنس کے چلدی راہ اپنی
اور صبر کا دامن چھوٹ گیا
آنکھوں سے جھیلیں بہہ نکلیں
اور ضبط بھی ھم سے روٹھ گیا
میں آج وہاں پر بیٹھا ھوں
جس جگہ پہ کل وہ "جوگی" تھا
یہ آج سمجھ میں آیا ھے
کس چیز کا آخر روگی تھا
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






