جو بچ کے رہنے کا کوئی ہنر نہیں رکھتے
دیارسنگ میں شیشے کا گھر نہیں رکھتے
عجیب خوف سا طاری ہے شہر پر میرے
یہاں کے لوگ تو کاندھوں پہ سر نہیں رکھتے
خدا ہی جانے کہ کس دام سے نکل آئے
پرندے اب تو قفس میں بھی پر نہیں رکھتے
نہیں ہیں ان کے مقدر میں منزلیں آضر
جو لوگ پاؤں میں اپنے سفر نہیں رکھتے