بکھرے ہوئے ہیں رنگ محبت کے سلسلے
آئیں گے لے کے در پہ شکایت کے سلسلے
اس کی تلاش میں ہے رواں کاروانِ زیست
جو تھک کے رہ گئے وہ اذیت کے سلسلے
کچھ ان کےخوابِ مرگ میں مسند نشین ہیں
کچھ میرے ساتھ ساتھ ہیں وحشت کے سلسلے
اتنی بھی زندگی نہ ہو پابندِ رسمیات
کیا وسوسہ عزاب کا ، دہشت کے سلسلے
پوچھا کبھی نہ تونے بھی گھر بار کیا ہوا
کس اور جا رہے ہیں یہ چاہت کے سلسلے
رکھا ہوا ہے آنکھ میں اک سیل غم نہاں
وشمہ مرا نصیب قیامت کے سلسلے