جو خیال تھے نا قیاس تھے۔ وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کے اساس تھے۔ وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل۔ وہی لوگ بنے میرے ہم سفر
مجھے ہر طرع سے جو راس تھے۔ وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کی۔ یہ سراب اب اور ستائے گی
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے۔ وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
یہ غیال سارے ہیں عارضی۔ یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گل آرزو کی جو پاس تھے۔ وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں کر سکا نا قبول میں۔ شریک راہ سفر ہوئے وہی
جو میری طلب میری آس تھے۔ وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے