دِل میں جو درد بسے ہیں، وہ تمہارے ٹھہرے
اب تو یہ درد ہی جینے کے سہارے ٹھہرے
جو دِیئے ہم نے جلائے وہ تیرے نام کے تھے
جو دِیئے تُو نے بُجھائے وہ ہمارے ٹھہرے
کوئی صحرا کو گئے، کوئی چلے سُوئے دار
اُف کہاں جا کے تیرے حُسن کے مارے ٹھہرے
بادباں کھول کے کشتی کو خدا پہ چھوڑا
اُس کی تقدیر ہے ڈُوبے یا کنارے ٹھہرے
ایسے روشن ہوئے آنکھوں میں تیری یاد کے چاند
جیسے پلکوں پہ کہیں آ کے ستارے ٹھہرے