جو زخم پنہاں تھا فِشاں ہونے لگا
میرا دکھ چہرے سے عیاں ہونے لگا
جو تھا رگِ جاں سے بھی عزیز تر
اب کے وہی عذابِ جاں ہونے لگا
پہلے جو میرے ساتھ بانٹتا تھا میرے دکھ
میرے لیے وہ شخص اب آسماں ہونے لگا
جس کا چمن کے اُجڑ جانے میں ہاتھ تھا
اُسی چمن کا وہ باغباں ہونے لگا