جو غم بھی اس نے دیا محبت سے
قبول میں نے کیا محبت سے
ضرور اس کا جواب لکھوں گا
ہے خط جو اس نے دیا محبت سے
میں دوڑتا تیری جانب آؤں گا
اگر تو مجھ کو بلا محبت سے
جو ہجر میں جل رہا ہوں برسوں کا
ملی ہے مجھ کو سزا محبت سے
برا نا بالکل میں تیرا مانوں گا
اگر تو مجھ کو ستا محبت سے
میں شکوہ اس کا کروں بھی تو کیسے
وہ دور مجھ سے ہوا محبت سے
مرید باقر تو داستاں اپنی
سنا سہی پر سنا محبت سے