جو قطرہ آنکھ سے ٹپکے
Poet: فہیم اسلم By: فہیم اسلم, Lahoreجو قطرہ آنکھ سے ٹپکے
سبب اسکا ندامت ہو
تو قطرہ ایک توبہ ہے
حسرت ہو اگر باعث
قطرے کے ٹپکنے کا
تو قطرہ التجا ہے پھر
مکمل اک دعا ہے پھر
خوشی سے گر جو نکلے تو
ہے قطرہ نفلِ شکرانہ
وہ قطرہ ایک سجدہ ہے
وہ قطرہ دل کا نزرانہ
کسی مظلوم کا ٹپکے
اگر اک خون کا قطرہ
خدا کا قہر بن جائے
وہ قطرہ لہر بن جائے
فرعونوں کی تباہی کا
یزیدوں کی ذلالت کا
جو ٹپکے آسماں سے تو
قطرہ ایک رحمت ہے
زمیں کو زندگی بخشے
دریا کو روانی دے
زمیں کو سبز چادر دے
چادر پے بکھیرے رنگ
پھولوں اور بہاروں کے
جو قطرہ سیپ میں ٹپکے
بنے اک قیمتی زیور
وہ قطرہ سانپ میں ٹپکے
تو بن کے زہر ظاہر ہو
جو ٹپکے رحم مادر میں
تو ایک فنکارِ نقاشی
کرے پانی کے قطرے پر
اک بے جان قطرے میں
یک دم جان پڑ جائے
یہ ننھا بے وقعت قطرہ
مکمل داستاں بن جائے
کئی جہتوں میں پنہاں ہے
کہانی ایک قطرے کی
قطرہ ہر کہانی میں
کتنے رنگ بدلتا ہے
میرے مالک میں حیراں ہوں
قطرے کی کہانی پر
کہ قطرہ میں یہ دنیا ہے
یا دنیا ایک قطرہ ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






