جو نظر ہے مطمئن ہے جو نفس ہے شادماں ہے
کہ بقیدِ جور پیہم کوئی مجھ پہ مہرباں ہے
تیری اک نظر کا حاصل عدم و وجودِ جاں ہے
کہیں زندگی کا عالم ، کہیں مرگِ ناگہاں ہے
تیرے حسن ضو فگن سے یہ فروغِ گلستاں ہے
نہ ہو جس میں تیرا پرتو وہ بہار بے خزاں ہے
میری گفتگو نمایاں ہے بغیر گفتگو بھی
میں سناؤں حالِ دل کیا کہ نظر ہی خود زباں ہے
میرے، تیرے، سوزِ دل کا نہیں بوالہوس تقابل
میری آگ میں شرر ہیں تیری آگ میں دُھواں ہے
کبھی پاؤں لڑکھڑائے تو کہا یہ مجھ سے دل نے
وہ چمک رہی ہے منزل وہ غبارِ کارواں ہے
جو ہو اذنِ اہلِ گلشن تو میں ہر کلی سے کہہ دوں
تیرا مضمحل تبسم، میرے ذوق پر گراں ہے
رہوں ترکِ معصیت پر میں شکیلؔ کیسے قائم
ابھی دل میں ولولے ہیں، ابھی آرزو جواں ہے