جو وعدہ کرتے ہیں ہم پورا کرتے ہیں
اب دیکھئے وہ ہم سے کیا کرتے ہیں
لگا لئے ہیں چند روگ زندگی سے
اب آنسو آنکھوں سے گرا کرتے ہیں
آ گئے ہیں کٹھن مرحلے معلوم نہ تھا
جو جدائی پر مشتمل ہوا کرتے ہیں
آپ ہوتے اسیر زلف تو وہی کچھ کرتے
وہ نہ کرتے جو آپ ہم سے کہا کرتے ہیں
لگتے ہیں وہ معصوم پر نہیں اتنے سادہ
جیسے وہ ہمیں دیکھائی دیا کرتے ہیں
کوئی دیکھ نہ لے ان کا اصل چہرہ کہیں
اسے لئے تو وہ بار بار رنگ بدلا کرتے ہیں