جھکا کے سر خاموشی پہ اصرار کیا ہے
Poet: Dr. Riaz Ahmed By: Dr. Riaz Ahmed, Karachi.جھکا کے سر خاموشی پہ اصرار کیا ہے
اقرارِ محبت کا یوں اظہار کیا ہے
اقرار نہ سمجھنے کہ وجہ کوئی نہیں
کسی بات پہ اس نے کبھی انکار کیا ہے
یونہی تو نہیں اس کا التفات میرے یار
ہم نے کیا ہے عشق اس سے پیار کیا ہے
گزرنا وہ اس کی گلی سے اور ملاقات
دریا کوئی کچے گھڑے سے پار کیا ہے
زمیں پہ اب ٹکتے نہیں ہیں پیر ہمارے
رکنے کا تقاضا ہمیں اس بار کیا ہے
اس کا سراپا رہتا ہے آنکھوں میں، نیند دور
نطروں کو اُس نے جب سے مجھ سے چار کیا ہے
بھلا نہیں سکتا میں اس سے قرب کے لمحے
میری خواہشوں کو یوں سرشار کیا ہے
کچھ نہیں جہاں میں اِک اُس کا خیال اور ہم
ہمیں عشق نے دنیا سے یوں بےزار کیا ہے
دنیا سے دل اُچاٹ ، اُس سے مل نہیں سکتے
اِک ۔۔۔ عجیب کیفیت نے گرفتار کیا ہے
گزرے بڑے ایام کچھ خبر نہیں آئی
لگتا ہے کہ رقیب نے کوئی وار کیا ہے
اِک بیماروں کا ہجوم ہے اب کوئے یار میں
میری ستائشوں نے ہی انار کیا ہے
پردے میں ریا حسن، رہی جب تلک کلی
کھِلی تو اِک زمانہ طلب گار کیا ہے
تب سازشیں خود مجھ سے ملنے سامنے آئیں
جب یہ سنا ملنے سے اُس نے عار کیا ہے
لی بے وفا کے واسطے دنیا سے دشمنی
خود، راہِ زندگی کو یوں پر خار کیا ہے
انکار سن کے اُس کے منہ سے یوں لگا مجھے
سولی چڑھانے کو سپردِ دار کیا ہے
ہم سے وہ کنارہ کش، دنیا سے ہم ریاض
خود کو سزا دیتے ہیں، نظرِ غار کیا ہے
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






