جھیل رہے ہیں جس کی سزا ہم صدیوں سے
یوں لگتا ہے محبت سنگین جرم بن گئی ہے
زمانے سے خود کو چھپائے پھرتے ہیں
خود پہ حجاب اوڑھے محبت شرم بن گئی ہے
بھول کر خدا کو دنیا انساں کو پوجتی ہے
ان بت پجاریوں کے لیے محبت دھرم بن گئی ہے
بھٹکا رہی ہے در بدر ہر لمحہ بے آسراہ
صحرا کی ریت کی مانند محبت سیال گرم بن گئی ہے
ہر کسی کا سرور اس میں پنہاں ہے
درد والوں کے لیے محبت کرم بن گئی ہے
غم دوراں سے چند لمحات چرانے کے واسطے
سوختہ چراغوں کے لیے محبت بھرم بن گئ ہے
ہم سے تو لیتی رہی جابجا ہر مسکان کا حساب
نجانے کیوں ان بے وفاؤں کے لیے محبت نرم بن گئی ہے