میرا انداز تھا پر شور ہواؤں جیسا
تجھ سے مل کر ہوا دل میرا خلاؤں جیسا
پہلے ہوتا تھا انداز تغافل میرا
اب تو انداز سخن بھی ہے گداؤں جیسا
تو جو آیا تو بجھی پیاس میرے لفظوں کی
تیرے ملنے کا انداز گٹھا ؤ ں جیسا
تو تو دے کر مجھے ایک خوشی بھول گیا
تیرا انداز بھی لگتا ہے خداؤں جیسا
میں نے چاہا ہے جسے اپنے سے بڑھ کر عاشی
کہیں کر دے نہ مجھے زرد خزاؤں جیسا