حادثے جب حادثوں کے ترجماں ہونے لگے
کتنے غم آ نکھوں ہی آ نکھوں میں بیاں ہونے لگے
بن گیا جب آینہ چہرہ ، دِلی جذبات کا
سارے جذبے اُن کے چہرے سے عیاں ہونے لگے
قافلوں کو لوُٹنا جن کا سدا شیوہ رہا
واۓ حیرت ، اب وہ میرِ کارواں ہونے لگے
مجھ کو جن کے ساتھ جانا تھا اُفق کے پار تک
میرے رستے کا وہی سنگِ گراں ہونے لگے
فاصلہ جب رہ گیا منزل سے اِک دو گام کا
گمُ مرِی نظروں سے منزل کے نشاں ہونے لگے
اِنقلابِ زندگی شاید اِسی کا نام ہے
جو زمیں تھے کل ، وہی اب آسماں ہونے لگے
ضبطِ گریہ سے لیا ہے کام میں نے اُس گھڑی
اشک جب بھی میری آ نکھوں سے رواں ہونے لگے
یہ بھی عذراؔ وقت کی شاید نییٔ اِک چال ہو
کل جو دشمن تھے وہی اب مہرباں ہونے لگے