حد سے توقعات زیادہ کیے ُہوئے
بیٹھے ہیں دل میں ایک ارادہ کیے ُہوئے
اس دشت بے وفائی میں جائیں کہاں کہ ہم
ہیں اپنے آپ سے کوئی وعدہ کیے ُہوئے
دیکھو تو کتنے چین سے اک درجہ مطمئن!
بیٹھے ہیں ارض پاک کو آدھا کیے ہوئے
پاؤں سے خواب باندھ کے شام وصال کے
اک دشت انتظار کو جادہ کیے ہوئے
آنکھوں میں لے کے جلتے ہوئے موسموں کی راکھ!
دردِ سفر کو تن کا لبادہ کیے ہوئے
دیکھو تو کون لوگ ہیں!آئے کہاں سے ہیں !
اور اب ہیں کس سفر کا لبادہ کیے ہوئے
اس سادہ رُوکے بزم میں آتے ہی بجھ گئے
جتنے تھے اہتمام کا زیادہ کیے ہوئے
اُٹھے ہیں اُس کی بزم سے امجد ہزار بار
ہم ترک آرزو کا ارادہ کیے ہوئے