حرص و نادانی میں یہ تم کیا کر بیٹھے
خود کو ہی اپنی نظروں میں بیمقام کر بیٹھے
اپنی زمیں تو کیا تم تو ضمیر وخمیر بھی اپنا
اپنی زباں اپنی تحریر ہی گروی رکھ بیٹھے
اپنی آنیوالی نسلوں کو اپنے ہی ہاتھوں
اک موج بحر طوفاں کی نظر کر بیٹھے
پاس ہے تیرے اک مہرہ روز محشر کے لیۓ
کہیں اب تو اپنا ایمان ہی نہ گروی رکھ بیٹھے