حرف باطل میں پھر تمیز کی شناخت کون کرے
تقدیروں کا کھیل ہے اس میں تفاوت کون کرے
یہاں تو انتشار ویرانیاں تقسیم ہوتی رہی ہیں
صبر میں سلطانی ہو تو بغاوت کون کرے
کم قدری تو ہے، لیکن خفگی سے دل بہلاتے ہیں
بڑے اختیار رلائیں گے یہ عداوت کون کرے
تم مہو ہو یہ ترویج تیرے نینوں سے ٹپکتی ہے
عشق نے عیاں کیا نہیں تو یہ ذلالت کون کرے
خلل سے پہلے کراہیت نہیں تھی اس دنیا سے
جنوں غالب بھی ہوگیا تو اب ملامت کون کرے
ہم کہیں صدا چھوڑکر کتراکے نہیں گذرے سنتوشؔ
یہاں خود کو صدائے بازگشت کی علامت کون کرے