حریف زندہ رہے یار مر گئے میرے
کہ اس فسانے میں کردار مر گئے میرے
زمانے بھر میں کوئی بھی نہیں رہا اپنا
جہاں کہیں بھی تھے حبدار مر گئے میرے
عجیب فلم بنی ہے مری جوانی پر
قدم قدم پے ادکار مر گئے میرے
میں اپنے شہر میں اب اپنی آشنا ہوں فقط
یہ واقعہ ہے کہ غم خوار مر گئے میرے
کوئی بھی نوحہ کناں اب نظر نہیں آتا
میں مر گئی تو عزادار مرگئے میرے
دیارِ غیر میں لوٹا گیا مجھے اکثر
یہی تو دکھ ہے طرفدار مر گئے میرے
کوئی ستم ہے نہ کرم ہے کئی مہینوں سے
کسی سبب سے ستم گار مر گئے میرے
گزر گئے ہیں زمانے مری محبت کے
مرے خیال میں دلدار مر گئے میرے