اپنی حسرتوں کو سنبھال رکھتا ہوں
یعنی جاں کا وبال رکھتا ہوں
تو ظلم کرنے میں چیمپیئن ہو گا
میں سہنے میں کمال رکھتا ہوں
دکھوں کی ایسی عادت مجھ کو ہو گئی ہے کہ
عزاب اپنے لیے خود ہی میں پال رکھتا ہوں
جو تو نے مجھ کو دیے کون کسی کو دیتا ہے
میں اپنے سارے زخم بے مثال رکھتا ہوں
تیری کج ادائیوں کی شام کب ہو گی
میں زباں پر یہی اکثر سوال رکھتا ہوں
تیرا آنا اک خواب ہو گیا ہے امن
میں پھر بھی حساب ماہ و سال رکھتا ہوں