اب تو وقتِ بہار کی صدا ہو گئی ہے
جانے کب لوٹے گا وہ صبح سے شام ہو گئی ہے
کیا جانے کس جرم کی سزا پائی ہم نے
تیرے ظلم کی انتہا اب ہو گئی ہے
کاش کہ ہوتا نہ سفر يوں کانٹوں پہ
جو درد کی روا اب ہو گئی ہے
جو مانگا تھاتيرا ساتھانہ ملا ہم کو
جو تھی مرض کی دوا اب کھو گئی ہے
کہ دے اُس جامِ سہد سے سندر
ان آنھوں کو اندھیری محفل کی عادت ہو گئی ہے