کون کہتا ہے مجھے دار سے ڈر لگتا ہے
مجھے تو اپنے ہی غمخوار سے ڈر لگتا ہے
کہیں یہ طور کی صورت جلا نہ دے آنکھیں
تیرے حدت بھرے دیدار سے ڈر لگتا ہے
مجھے تھما دو ذرا اپنی یاد کے جگنو
اندھیرے میں در و دیوار سے ڈر لگتا ہے
یہ تو یوسف کا بھی نیلام کرا دیتے ہیں
مصر کے کوچہ و بازار سے ڈر لگتا ہے
خزاں کے پیچ و خم کا فکر نہیں ہے مجھکو
مجھے خاموشی بہار سے ڈر لگتا ہے
دشمنوں کی کھلی چبھتی نظر سے کیا ڈرنا
دوستوں کے چھپے کردار سے ڈر لگتا ہے
کئی دستاریں گری ہیں فریب میں ان کے
حسینوں کے لب و رخسار سے ڈر لگتا ہے