حسیں بے درد ہوں لیکن اُنھیں درماں کہا جائے
نہ ہو محبوب تو دُنیا میں یارو! کیا جیا جائے
ہزاروں بُت یہی سب جان کر دل میں بسائے ہیں
کہ کوئی آئے پیغمبر اِسے کعبہ بناجائے
محبت شیفتگی کی حد سے یارو جب نکلتی ہے
کتابوں میں اُسے بھر کر کوئی قصہ کہاجائے
کروڑوں غم مچل جاتے ہیں تیرا تذکرہ سُن کر
یوں زائر صوفی کے دربار پر میلہ لگا جائے
عبث رٹنا کتابیں اور عبث ہیں تجربے کرنا
وہی تعلیم ہے آدم کو جو انساں بنا جائے
لٹیرے دیس کے دیکھے تو دل سے آہ یوں نکلی
اے عابد کاش کوئی اِن کو آئینہ دکھا جائے