حصار غم سے نکل اپنی زندگانی بچا
نگاہ ہجر میں آئی ہوئی جوانی بچا
یہ لوگ پیار کے حاسد ہیں میرے قصہ گو
کسی کی ایک نہ سن تو فقط کہانی بچا
عجیب رنج تھا جس نے یہ آنکھ بنجر کی
میں اتنا رویا مری آنکھ میں نہ پانی بچا
ہر ایک چیز نہ غصے سے کوڑے دان میں پھینک
قرار دل کو بھی اس کی کوئی نشانی بچا
خزاں رتوں نے بھی برسوں تلک جلایا مجھے
نمو کو بھی نہ کوئی دست باغبانی بچا
رفاقتوں کا حسن اور کچھ نہیں حاصل
بچا تو دل میں فقط رنج رائگانی بچہ